سپریم کورٹ عمران خان کی درخواست پر پاناما کی تحقیقات کے لیے کمیشن بناکر سخت سے سخت ٹی او آرز بنا بھی دے تو نوازشریف کا احتساب ممکن نہیں ہے۔کیونکہ سپریم کورٹ کو جن اداروں نیب،ایف آئی اے،ایف بی آر،اسٹیٹ بینک اور ایس ای سی پی نے ثبوت فراہم کرنے ہیں،تحقیقات میں مدد کرنی ہے وہ بالکل تعاون نہیں کریں گے اور نہ ہی میاں صاحب کے خلاف موجود ثبوت فراہم کریں گے۔روف کلاسرا
سپریم کورٹ پاناما کی تحقیقات کرنا بھی چاہے تو اس کو نیب کی مدد درکار ہوگی جبکہ نیب کے چیئرمین قمرالزمان چوہدری تو خود اپنے سکینڈل سے نکلنے کے لیے ہاتھ پاوں ماررہے ہیں تو وہ کسی اور کے سکینڈل کی تحقیقات میں مدد فراہم کیسے کریں گے؟؟روف کلاسرا
سیاستدان سمجھ دار ہیں وقت آنے سے پہلے ہی اپنے دفاع کے لیے قانون بنا لیتے ہیں۔زرداری صاحب نے 2010 میں ہی قانون بنادیا تھا جس کے تحت اب ایف بی آر پانچ سال کے اندر اندر بنائی گئی آف شور کمپنی کی تحقیقات کر سکتا ہے۔اس سے پہلے بنائی گئی کمپنیوں کی ایف بی آر تحقیقات نہیں کرسکتا۔اس لیے قانون کے مطابق ایف بی آر آف شور کمپنیوں کی تحقیقات میں کوئی مدد فراہم نہیں کرے گا۔روف کلاسرا
اسٹیٹ بینک کا اس وقت گورنر وہ ہے جس نے شاہی خاندان(شریف خاندان) کو بیس ملین ڈالر کا فیصل بینکل سے قرضہ لے کردیا تھا،جو ڈپٹی گورنر ہیں ان کے بارے میں اسحاق ڈار صاحب نے اعتراف کیا ہوا ہے کہ شاہی خاندان کے لیے انہوں نے جو منی لانڈرنگ کی تھی اس میں اس انہیں موصوف نے مدد فراہم کی تھی جو آج کل ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک ہیں۔تو اس صورتحال میں پاناما لیکس پر نوازشریف اور ان کے خاندان کا احتساب کیسے ہو سکتا ہے؟؟روف کلاسرا