شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب دامت برکاتہم نے "کشف الباری شرح بخاری" کتاب الجہاد جلد دوم صفحہ نمبر 106 پر لکھا ہے کہ ...!
حدیث باب میں جس واقعہ کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے اس کا تعلق 63ہجری سے ہے
جب یزید برسر اقتدار آیا تو اہل مدینہ کا ایک وفد یزید سے ملاقات کے لیے دمشق گیا انہوں نے بعض نامناسب باتیں یزید میں دیکھیں اور مدینے واپس آکر یزید کی اطاعت سے انکار کردیا اور عبداللہ ابن زبیر کے ہاتھ پر اہل مدینہ نے بیعت کرلی جب یزید کو پتہ چلا تو اس نے مسلم بن عقبہ کی سربراہی میں مدینہ کی طرف لشکر روانہ کردیا مسلم کو حد سے زیادہ ظلم ڈھانے کی وجہ سے لوگ "مسرف بن عقبہ " کے نام سے یاد کیا کرتے تھے اس نے مدینہ کی مشرقی جانب حرہ واقم میں پڑاؤ ڈالا
غسیل الملائکہ حضرت حنظلہ کے بیٹے عبداللہ بن حنظلہ اہل مدینہ کی جانب سے میدان میں آئے اور اپنے سات بیٹوں سمیت شہید ہوگئے مسلم بن عقبہ کے لشکریوں نے خوب قتل و غارت کا بازار گرم کیا تقریبا17 سترہ سو انصاری 13 سو قریشی اور دس ہزار عام مسلمانوں کو شہید کیا مدینہ کی اینٹ سے اینٹ بجادی مال واسباب لوٹا گیا پاکباز آزاد عورتوں کی عصمت دری کی گئ آٹھ سو عورتوں کو اس زیادتی سے حمل ٹھہرا ان بچوں کو جو اس حمل سے پیدا ہوئے تھے اولادالحرہ کے نام سے پکارا جاتا تھا
بحوالہ معجم البلدان ج2 ص249
عمدة القاری ج 14 ص224
اس کاجرم صرف کربلا کا واقعہ نہیں ...اس کے منہ کو پاکیزہ جماعت کا خون لگ گیا تھا کربلا کے بعد اس کی کارستانیاں ہمارے ایمان کے اول اور آخری مرکز مدینہ منورہ تک پہنچ گئی تھیں ...کیا اب بھی وکیل بلاتوکیل کی گنجائش ہے ...؟؟؟